پینڈو

  پینڈو 


 پینڈو ہونا کوئی برائی نہیں ہاں جاہل ہونا اصل برائی ہے میں جس گاؤں میں پیدا ہوا وہاں نہ بجلی تھی نہ سڑکیں تھیں،نہ ہی کسی قسم کی جدید سہولیات تھیں ۔ مجھے آج بھی اسکا نام یاد ہے ۔ چک 161 شمالی، جھامرہ۔ جو ضلع سرگودھا کا ایک گاؤں ہے ۔ جھنگ اور سرگودھا کے درمیان جھنگ سرگودھا روڈ پر آباد ہے اس لحاظ سے میں خود بھی ایک پینڈو ہوں اور مجھے اپنے پینڈو ہونے پر فخر ہے ،پینڈو ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کا نیچر سے گہرا تعلق قائم ہو جاتا ہے نیچر یا فطرت سے جتنا گہرا اور پرانا تعلق ہو گا آپ کو فطرت سے اتنا ہی پیار ہو گا ایک گاؤں میں رہ کر آپ کو فطرت کے قریب رہنے کا موقع ملتا ہے پورا لائف سٹائل فطرتی اصولوں پر گزرتا ہے آپ سادگی اور فطرت سے پیار کرنے لگتے ہیں سادگی ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہے - قدرت کی وہ نعمتیں جن کے لئے شہری ترستے ہیں وہ آپ کی روز مرا کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں، خالص اور سادہ غذا ،خالص بھینسوں کا دودھ۔ گاؤں اپنے باغ کے امرود، کینو مالٹے۔ لکڑی کی آگ پر پکے ہوے گھر کے کھانے۔

نہ گاڑیوں کا شور نہ دھویں کی pollution، صبح سویرے اگر آپ کو کوئی شور سنائی دیتا ہے تو وہ "گھگھی" (ایک پرندہ) کی گھوگھو گھوں کی گونج ہوتی تھی رات کو اکثر دور کہیں دور کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دیتی تھی یہ سب بہت پیارا اور نیچرل لگتا تھا. زندگی کی جو خوبصورتی، حسن ، قدرتی ماحول، قدرتی آب و ہوا اور purity آپ کو ایک گاؤں یا پنڈ میں ملتی ہے وہ شہر والے تصور بھی نہیں کر سکتے. مجھے نہیں معلوم اب پاکستان میں گاؤں کی زندگی کیسی ہے لیکن میرے وقت میں گاؤں یا پنڈ کی زندگی بہت سادہ اور خوبصورت تھی، میں نے اپنے ہاتھوں سے مویشیوں کے لئے چارہ بھی کاٹا ہے، گدھے کی سواری بھی کی ہے، اپنے ہاتھوں سے مویشیوں کے لئے مشین سے چارہ بھی کترا ہے، بھینس کے نیچے بیٹھ کر بھینس کے تھنوں سے تازہ ترین قدرتی طور پر گرم گرم دودھ بھی پیا ہے . گرم گرم پراٹھے پر گھر کا بنا ہوا مکھن رکھ کر ناشتہ بھی کیا کرتا تھا، گوبر کے آپلوں پر کڑھے ہوۓ دودھ سے بنی گھر کی لسی بھی پیا کرتا تھا. چک جھامبرا میں میرے دادا جی جو اس وقت علاقے کے مشہور حکیم تھے، انکا نام میاں محمد رانجھا تھا۔ وہ ہر طرح کی معجون۔ خمیرے عرقیات اور تمام دیسی ادویات خود ہی گھر پر بنایا کرتے تھے ۔ گھر کافی وسیع اور بڑا تھا ۔ انکا بنایا ہوا خمیرہ گاؤزبان اکثر چوری چوری کھایا کرتا تھا کئی بار پکڑا بھی گیا. دادا جی سے سزا کے طور پر مسکراہٹ ملتی تھی. بچپن میں میں میٹھے کا جانی دشمن ہوا کرتا تھا۔ جو میٹھی چیز مل جاتی اُسے زندہ نہیں چھوڑتا تھا۔ گرمی کی سخت دوپہر میں درخت کی گھنی چھاؤں کے نیچے چارپائی ڈال کر nap بھی لیا کرتا تھا ۔ چک جھامبرا میں ایک بہت بڑی نہر گزرتی تھی ۔ میں اکثر نہر میں نہایا بھی کرتا تھا. tube-well کے سوئمنگ پول میں ڈبکی بھی ماری ہے اور مرتے مرتے بچا بھی تھا کیونکہ مجھے سوئمنگ نہیں آتی تھی. اونٹ۔ گھوڑے اور گدھے کی سواری بھی کی ہے درختوں پر چڑھ کر شہتوت اور جامن بھی کھاۓ ہیں گاؤں میں گھر کی چھت پر بھی سوتا رہا ہوں رات چھت پر سوتے ہوۓ آسمان کا مشاہدہ کرنے اور تارے گننے گننے کا اپنا ہی مزہ تھا۔اکثر گرمیوں کی راتوں کو سب فیملی ممبرز مکان کی چھت پر چارپائیاں ڈال کر رات کی تاریکی اور خاموشی میں خوب گپ شپ اور ہنسی مذاق کیا کرتے ۔ رات کو جو قدرتی اور ٹھنڈی ہوا چل کرتی اور پھر کبھی کبھی اچانک سوتے ہوئے چہروں پر بارش کی بوندیں گرنے لگتیں شہر کے لوگ اس لطف کو کبھی محسوس نہیں کر سکتے یہ سب گاؤں کی یادیں ہیں ہاں میں پینڈو ہوں اور مجھے اپنے پینڈو ہونے پر فخر ہے
All reactions:
93

Post a Comment

0 Comments